Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 7

منزل عشق قسط  7
رات کے دس بج رہے تھے اور انس عادت سے مجبور اپنے گھر کے چھوٹے سے کچن میں چائے بنانے میں مصروف تھا۔ اسکی اپنی کوئی فیملی نہیں تھی بس ایک ماں تھی جو ایک سال پہلے وفات پا چکی تھیں اور دو بہنیں جو شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں میں خوش تھیں۔انس اکیلا ہی رہتا تھا اور ایک آدمی کے پاس ریسلر کا کام کرتا تھا۔
اچانک دروازہ کھٹکنے کی آواز پر انس کے چلتے ہاتھ رکے اور اس نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا۔کبھی کوئی یہاں اس سے نہیں ملنے آیا تھا کیونکہ کوئی اسے جانتا ہی نہیں تھا۔
انس نے ساتھ موجود میز سے اپنی پسٹل پکڑی اور دروازے کی جانب بڑھا ویسے تو وہ اتنا محتاط نہیں ہوتا تھا لیکن جس جگہ وہ کام کرتا تھا وہاں برے سے برے لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔
انس نے دروازہ کھولا تو اسے اپنے سامنے جینز پر گھٹنوں تک آتا فراک پہنے ایک لڑکی نظر آئی جو باہر برستی بارش میں پوری طرح سے بھیگ چکی تھی۔
"ہانیہ۔۔۔"
ایک پل لگا تھا انس کو اسے پہچاننے میں لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ رات کے اس پہر ایسی حالت میں وہاں کیا کر رہی تھی۔
"مممم۔۔۔۔مجھے آپکی ہیلپ چاہیے انس۔۔۔"
ہانیہ نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر کہا تو ایک پل کا وقت ضائع کیے بغیر انس اسے گھر کے اندر لے آیا۔
اکتوبر کے شروعاتی دنوں میں مری میں  سردی بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔انس نے اس کے گرد ایک گرم چادر پھیلائی اور جلدی سے اسکے لیے کافی بنانے لگا اور یہ سارا وقت ہانیہ بس وہاں گم سم سی بیٹھی تھی۔
نہ چاہتے ہوئے بھی انس کی نظریں بار بار اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھیں آج پانچ سال کے بعد وہ اسے دیکھ رہا تھا۔
 اسے پانچ سال پہلے کا وہ دن آج بھی یاد تھا جب وہ وجدان خان کی نظروں میں آیا تھا۔وجدان کا ایک ایجنٹ ہونے کا راز کھلنے پر اسکی دشمنی بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔جسکی وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں کی حفاظت کو لے کر بہت زیادہ پریشان رہتا۔
"وجدان میں اپنے بیسٹ سولجرز لگاؤں گا تمہاری فیملی کی حفاظت کے لیے۔"
جنرل شہیر ٹرینگ فیلڈ کی جانب جاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
"اپنی نور کی حفاظت کے لیے میں خود ہی کافی ہوں مجھے بس پروا اپنی بیٹیوں کی ہے خاص طور پر ہانیہ کی جو کسی گارڈ کو ٹکنے ہی نہیں دیتی۔۔۔"
وجدان نے گہرا سانس لیتے ہوئے اپنا مسلہ بیان کیا۔اسکی پندرہ سالہ ہانیہ جو حد سے زیادہ شرارتی تھی اسکی حفاظت ہی تو وجدان کا مسلہ تھی۔
"ہمم فکر مت کرو ہم کچھ نا کچھ کر ہی لیں گے۔۔۔"
جنرل شہیر نے کہا جبکہ وجدان کا دھیان ٹرینگ فیلڈ میں موجود اس چوبیس سالہ لڑکے پر تھا جو اکیلا ہی پانچ سپاہیوں پر بھاری پڑھ رہا تھا۔
"یہ کون ہے؟"
وجدان کے سوال پر جنرل شہیر نے انس کو دیکھا۔
"یہ انس راجپوت ہے ہمارے ایک شہید سپاہی کا بیٹا ہے پہلے تو ایک ریسلر ہوا کرتا تھا لیکن باپ کے شہید ہونے کے بعد انکی خواہش پر عمل کرتے ہوئے آرمی میں آ گیا۔۔"
اسے دیکھ کر ہی وجدان کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔
"اسکی ڈیوٹی آپ میری بیٹیوں کی حفاظت پر لگا دیں سر۔۔۔"
جنرل شہیر نے اثبات میں سر ہلایا اور ساتھ موجود سپاہی کو انس کو انکے آفس میں بھیجنے کا کہا۔
"سر۔۔۔"
کمرے میں داخل ہوتے ہی انس نے جنرل شہیر اور وجدان کو سیلیوٹ کیا اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔
"انس میں نے آپکی ڈیوٹی بدل دی ہے اب آپ کی ڈیوٹی بیٹل فیلڈ پر نہیں بلکہ باقی کے تین سپاہیوں کے ساتھ ہمارے لیفٹیننٹ کرنل وجدان خان کی فیملی کی پروٹیکشن پر ہو گی اور باقی کے سپاہی آپ کے ماتحت کام کریں گے۔۔۔"
جنرل شہیر نے اسے حکم دیتے ہوئے کہا لیکن پوری بات سن کر انس کے ماتھے پر بل آئے تھے۔
"معاف کریے گا سر لیکن میں آرمی میں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے آیا ہوں تاکہ اپنے بابا کا خواب پورا کر سکوں اس لیے مجھے میری ڈیوٹی سے شفٹ نہ کیا جائے۔۔۔"
انس نے سر اٹھا کر کہا تو وجدان نے اس لڑکے کو گھورا اور اسکے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔اس لڑکے کا قد وجدان سے بھی کوئی تین انچ زیادہ ہی تھا۔
"تم سے پوچھا نہیں گیا تمہیں بتایا جا رہا ہے۔دیٹس این آرڈر سولجر۔۔۔۔"
وجدان نے سختی سے کہا لیکن انس کو اسکی سختی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
"سوری سر آئی کانٹ ڈو دس آپ کسی اور سولجر کی ڈیوٹی لگوا لیں اپنی فیملی کی حفاظت پر۔۔۔"
"انس آپ اس وقت اپنے سینیر سے بات کر رہے ہیں اور ہمارے پاس یہ اتھارٹی ہے کہ ہم جہاں چاہیں آپکی ڈیوٹی لگا دیں۔ یہ میرا فیصلہ کہ اب آپکی ڈیوٹی لیفٹیننٹ وجدان کی بیٹیوں کی پروٹیکشن ہے۔۔۔"
جنرل شہیر نے سختی سے انس کو کہا۔
"بٹ سر۔۔۔۔"
"دیٹس این آرڈر انس۔۔۔"
جنرل شہیر کی بات پر انس نے ضبط سے اپنی مٹھیاں کس لیں لیکن پھر 'اوکے سر ' کہتا انہیں سیلیوٹ کر کے وہاں سے نکل گیا۔
                       ❤️❤️❤️❤️
"ہانیہ، وانیا یہ آپکے نئے گارڈ ہیں انس اور اب آپ دونوں انکی ہر بات مانو گے خاص طور پر آپ ہانیہ۔۔۔۔"
وجدان ہانیہ کی جانب متوجہ ہو کر کہنے لگا جو سینے پر ہاتھ باندھے وجدان کے ساتھ کھڑے انس کو گھور رہی تھی۔
"ہم بچے نہیں بابا کہ کوئی ہماری حفاظت کرے آئی کین پروٹیکٹ مائی سیلف اینڈ ہر۔۔۔"
ہانیہ نے منہ بنا کر کہا لیکن وجدان اسکا کوئی بہانا سننے کو تیار نہیں تھا۔
"نو ہانیہ اور آپ شرارتوں سے باز ہی رہنا۔۔۔"
وجدان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو انس نے ان دونوں لڑکیوں کو دیکھا جو ہوبہو ایک دوسرے کا عکس تھیں لیکن ایک اسے سہم کر دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری اسے بری طرح سے گھور رہی تھی۔
"مجھے تمہاری ضرورت نہیں سمجھے اس لیے چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔"
ہانیہ نے انس کے قریب آ کر اپنی ایڑھیاں اونچی کرتے ہوئے کہا۔
"فکر مت کرو میں بھی اس ڈیوٹی سے اتنا ہی خوش ہوں جتنی تم۔اس لیے تم مجھے برداشت کرو بلکل جیسے میں تمہیں کر رہا ہوں۔"
انس نے اسکے ماتھے پر انگلی رکھ کر اسے خود سے دور کرتے ہوئے کہا اور وجدان کے پیچھے چلا گیا۔
ہانیہ غصے سے وانیا کی جانب پلٹی۔
"دو دن ۔۔۔۔۔دیکھنا وانی دو دن نہیں ٹکے گا یہ سڑو سا باڈی گارڈ۔۔۔"
ہانیہ نے مسکرا کر کہا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ سامنے بھی انس راجپوت تھا۔
اگلے دن سے انس کی ڈیوٹی سٹارٹ ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ ہانیہ کی شرارتوں کا سلسہ بھی۔کبھی وہ اسکا یونیفارم انک پھینک کر برباد کر دیتی تو کبھی اسکے جوتے،کبھی سکول جاتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پکنچر کر دیتی تو کبھی بلا وجہ کی فرمائشیں کر کے انس کا دماغ خراب کرتی۔
کچھ دن پہلے تو اس نے انس کی گاڑی کی سیٹ پر گلو لگا دیا اور سکول کے باہر پہنچ کر جب وہ گاڑی سے اترنے لگا تو اپنی پینٹ کے پھٹنے کی آواز پر وہیں جم کر واپس بیٹھ گیا۔اس منظر پر ہانیہ اور وانیا کے ساتھ ساتھ باقی کے دو سپاہی بھی قہقہ لگا کر ہنسے۔
تبھی انس کی بس ہوئی تھی اب وہ بھی اسکی ان شرارتوں سے عاجز آ چکا تھا۔
اگلے دن سکول سے واپسی پر جب انس گیٹ پر کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا تو یونیفارم میں معصوم سا چہرہ بنائے آتی بہن کو دیکھا۔انس اسکا معصومیت سے بھرا چہرہ دیکھتے ہی پہچان چکا تھا کہ وہ کون ہے۔
"تمہاری کاربن کاپی کہاں ہے؟"
اس نے گراؤنڈ کی جانب اشارہ کیا جہاں سیم یونیفارم میں پونی ٹیل بنائے دوسری بہن آ رہی تھی لیکن اسکے چہرے پر بھی بلا کی معصومیت تھی۔اب انس کنفیوز ہو چکا تھا۔
"ہانیہ کون ہے تم دونوں میں سے؟"
دونوں نے فورا ایک دوسری کی جانب اشارہ کیا تو انس نے انہیں گہری نگاہوں سے گھورا۔
"اچھا تو پھر وانیا کون ہے؟"
فوراً دونوں نے اپنی جانب اشارہ کیا اور معصومیت سے منہ بسور کر ایک دوسری کو دیکھا۔
اچانک ہی انس نے آگے بڑھ کر ایک بہن کا بازو تھاما اور اسے گاڑی میں ڈالا۔پیچھے کھڑی ہانیہ بے ساختہ مسکرائی۔
"تم گاڑی میں بیٹھو وانیا اسے میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔"
انس کی بات پر ہانیہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
"تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں ہانیہ ہوں میرے ایسا کرنے پر تو بابا بھی کنفیوز ہو جاتے ہیں۔"
ہانیہ کے حیرت سے کہنے پر انس مسکرا دیا۔
"کیونکہ یہ دو ہفتے تمہاری شرارتیں دیکھ دیکھ تمہاری رگ رگ سے واقف ہو چکا ہوں۔"
انس کی بات پر ہانیہ کا منہ بن گیا۔
"کوک چاہیے مجھے لا کر دو۔۔۔"
ہانیہ نے اپنا بیگ انس کی جانب پھینکتے ہوئے اسے حکم دیا۔
"باڈی گارڈ ہوں تمہارا،تمہارے باپ کا نوکر نہیں۔۔۔"
انس نے بیگ واپس اسکی طرف پھینک کر کہا جبکہ انس کی بات پر ہانیہ نے غصے سے اپنا بیگ واپس اسکی طرف پھینکا اور سامنے موجود دکان کی جانب چل دی  لیکن ابھی ہانیہ سڑک کے پاس ہی پہنچی تھی جب اچانک ایک گاڑی بہت رفتار سے آئی اور ہانیہ کے قریب رک کر اسے گاڑی کے اندر کھینچ کر چل دی۔
انس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے بیگ نیچے پھینکا اور اپنی پسٹل سے گاڑی کے ٹائر پر فائر کر کے ٹائر پنکچر کر دیا۔
"وانیا کو گھر لے کر جاؤ فوراً اور سر کو خبر کرو۔۔۔"
انس نے جلدی سے باقی سپاہیوں سے کہا اور خود دوسری گاڑی میں بیٹھ کر اس گاڑی کا پیچھا کرنے لگا جس میں ہانیہ کو وہ لوگ لے گئے تھے۔
چونکہ انکی گاڑی کا ٹائر پنکچر تھا اس لیے بہت آسانی سے انس اپنی گاڑی انکی گاڑی کے سامنے کھڑی کر چکا تھا۔
اس گاڑی کے رکتے ہی انس گاڑی سے نکل کر اپنی گاڑی کے پیچھے چھپا اور گاڑی میں سے نکلنے والے آدمی کے کندھے پر گولی چلا دی۔
پھر بہت مہارت سے ایک گولی اس نے ڈرائیونگ کے کندھے پر بھی ماری اور گاڑی کے قریب آیا۔
"وہیں رک جا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔"
ایک آدمی گاڑی سے باہر نکلا اور ہانیہ کی کن پٹی پر بندوق رکھ کر کہنے لگا۔ہانیہ کی آنکھیں خوف سے نم ہو چکی تھیں۔
"بندوق پھینک اپنی فوراً۔۔۔۔"
اس شخص کے ایسا کہنے پر انس نے فوراً اپنے ہاتھ اوپر کر لیے اور پھر اسے دیکھتے ہوئے نیچے جھک کر بندوق زمین پر رکھنے لگا۔
ہانیہ نے اسکے ہاتھوں کا رخ اپنے آرمی شوز میں رکھے خنجر کی جانب دیکھا تو ہمت کر کے اپنی کونی کو بہت زور سے اس آدمی کے پیٹ میں مارا اور موقع پا کر اسکے ہاتھ سے بندوق جھٹک کر جھک گئی۔
یہی موقع انس کو چاہیے تھا اس نے فوراً اپنا خنجر جوتے میں سے نکالا اور اسے پھینک کر اس آدمی کی گردن میں گاڑ دیا۔
اس آدمی کے زمین پر گرتے ہی ہانیہ بھاگ کر انس کے پاس آئی اور اس لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
وہ بہت بہادر سہی لیکن آج وہ بہت زیادہ ڈر چکی تھی انس نے بھی اسکا کانپتا وجود خود سے لگاتے ہوئے اسے دلاسہ دیا کہ سب ٹھیک تھا۔
"تھینک یو ہیرو۔۔۔۔"
ہانیہ نے اس کے سینے میں چھپتے ہوئے آہستہ سے کہا تو انس بھی مسکرا دیا۔
                      ❤️❤️❤️❤️
اتنے سے عرصے میں سب کچھ بہت اچھا ہو چکا تھا۔پہلی مرتبہ ہانیہ کو اپنا کو کوئی گارڈ اچھا لگا تھا اور اب تو اسکی شرارتی باتوں اور اٹھکھیلیوں کی وجہ سے انس کو بھی یہ ڈیوٹی اچھی لگنے لگی تھی۔
آج سنڈے تھا اور صبح ہوتے ہی ہانیہ ٹراؤزر پر ایک شرٹ پہنے انس کے کمرے کے باہر کھڑی دروازا کھٹکھٹا رہی تھی۔
"کیا بات ہے مس ہانیہ خان آج سنڈے ہے اور میر آف ہے تو پھر صبح صبح یہاں آنے کا مقصد۔۔۔؟"
انس جو خود ایک بلیک ٹراؤزر اور بلیک ٹی شرٹ میں ملبوس تھا اس سے پوچھنے لگا۔
"افف ہیرو آرمی والے اتنا نہیں سوتے بہت پنکچوئل ہوتے ہیں آپ پتہ نہیں کہاں کے آرمی والے ہو؟"
ہانیہ باقاعدہ اسکا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہہ رہی تھی پھر اسے بیک لان میں لے کر آئی۔
"ہانیہ کیا بات ہے کیوں لائی ہو مجھے یہاں؟"
انس نے لان میں آ کر پوچھا۔
"کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے فائٹنگ کرنا سکھاؤ تا کہ نیکسٹ ٹائم کوئی مجھے ہاتھ بھی لگائے تو اسکا منہ توڑ دوں میں۔"
ہانیہ نے دانت پیس کر چھوٹے سے ہاتھ کا مکا بنا کر انس کے چہرے کے پاس لاتے ہوئے کہا پھر کچھ یاد کر کے مسکرا دی۔
"پتہ ہے میری عشال پھپھو اتنی بریو تھیں وہ کسی سے نہیں ڈرتی تھیں اور بیسٹ نشانہ تھا انکا مجھے انکے جیسا بننا ہے اور پتہ ہے میں آرمی میں جانا چاہتی ہوں لیکن بابا مانتے ہی نہیں۔۔۔۔"
ہانیہ نے پوری بات بتائی تو انس مسکرا دیا۔
"لیکن تمہیں فائٹنگ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے میں ہوں نا تمہارے پاس تمہاری حفاظت کے لیے۔"
"ہاں بلکل ہیں لیکن میں چاہتی ہوں کہ اپنی اور وانی کی حفاظت آپکی غیر موجودگی میں بھی کر سکوں پلیز آپ مجھے سکھا دیں۔۔۔۔"
انس نے کچھ سوچا پھر اسکے تھوڑا قریب ہوا ۔
"تو پھر پنچ مارنے سے سٹارٹ کرتے ہیں۔۔۔"
انس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا تو ہانیہ خوشی سے چہک اٹھی۔
اسکے بعد ہر صبح انس اسے فائٹنگ سیکھاتا تھا اور وجدان کو بھی اس بات سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ایک تو وہ یہ سمجھ چکا تھا کہ انس انتہائی شریف انسان ہے اور دوسرا اس حادثے کے بعد وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ صرف ہانیہ ہی نہیں وانیا بھی خود کی حفاظت کے قابل ہو لیکن وانیا رہی صدا کی ڈرپوک۔
"آج ایک ٹرک سکھاتا ہوں تمہیں  ایسے ہاتھ سے پنچ بنا کر سامنے والے کو مارنے کے لیے اٹھاؤ اسکا سارا دھیان تمہارے ہاتھ کی جانب ہو گا لیکن اٹیک ہاتھ سے نہیں تمہیں ٹانگ سے کرنا ہے بلکل یہاں گھٹنے کے پاس بہت سینسٹو پوائنٹ ہے اگر ٹھیک سے مارا جائے تو چند پل کے لیے انسان اٹھنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔۔۔"
انس کے سمجھانے پر ہانیہ نے اثبات میں سر ہلایا لیکن جیسے ہی کوشش کرنے کے لیے آگے بڑھی انس اس کے چھوٹے سے وجود کو اٹھا کر بہت آسانی سے پٹخ کر ہنسنے لگا۔
"میں آپ سے تو نہیں جیت سکتی نا کبھی بھی آپ بہت پاور فل ہو۔۔۔"
ہانیہ نے منہ بنا کر کہا۔
"تو، مرد کی طاقت زیادہ ہی ہوتی ہے محترمہ اب یہ آپ پر ہے کہ کیسے آپ نے اسکی طاقت کو اسکے ہی خلاف استعمال کرنا ہے۔۔۔"
ہانیہ زمین سے اٹھی اور اپنے کپڑے جھاڑنے لگی۔تبھی انس کا موبائل بجنے لگا تو اپنی ماں کا نمبر دیکھ کر وہ مسکرا دیا۔
"اسلام و علیکم امی کیسی ہیں آپ؟"
انس نے محبت بھری آواز میں کہا تو ہانیہ اسے مسکرا کر دیکھنے لگی۔مسکراتے ہوئے وہ ہینڈسم سا چھوٹے بالوں اور کلین شیو والا فوجی مزید خوبرو لگ کر اسکے معصوم دل پر بجلیاں گرا رہا تھا۔
نہ جانے کتنی دیر وہ ہنستا مسکراتا اپنی ماں اور بہنوں سے باتیں کرتا رہا تھا اور ہانیہ خواب کی سی کیفیت میں اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
"ٹھیک ہے امی میں جلد ہی چھٹی لے کر گھر آتا ہوں پھر آپ جو چاہیں کریے گا آپکا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر۔۔۔"
انس نے اتنا کہہ کر موبائل بند کیا اور مسکراتے ہوئے ہانیہ کی جانب پلٹا۔
"آپ کہیں جا رہے ہیں کیا؟"
"ہاں امی نے میرے لیے کوئی لڑکی دیکھی ہے بس مجھے دکھا کر بات پکی کرنا چاہ رہی ہیں تو چند دن کی چھٹی لے کر گھر جاؤں گا۔۔۔"
انس کی بات پر ہانیہ کو ایسا لگا کہ کسی نے اسکا دل مٹھی میں لے کر جکڑ دیا ہو۔
"آپ کی شادی ہو رہی ہے؟آپ اس لڑکی سے شادی کر لیں گے؟"
ہانیہ کی بات پر انس ہلکا سا ہنس دیا۔
"ہاں کر لوں گا کیونکہ وہ میری امی کی پسند ہے اور انکی پسند ہی میری پسند ہے۔۔۔"
انس نے بہت نرمی سے کہا لیکن ہانیہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔اچانک ہی وہ آگے بڑھی اور اپنے قدم اونچے کر کے انس کو گریبان سے پکڑا تھا۔
"نہیں آپ کسی سے شادی نہیں کریں گے انس راجپوت آپکی شادی صرف ایک لڑکی سے ہو گی ہانیہ وجدان خان سے۔۔۔مجھ سے ہو گی سمجھے آپ کیونکہ آپ صرف میرے ہیرو ہیں۔۔۔۔۔"
ہانیہ اسکا گریبان ہاتھ میں جکڑے بہت شدت سے کہہ رہی تھی جیسے انس اسکی ملکیت ہو۔
"ہانیہ یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم عمر دیکھو اپنی بس پندرہ سال کی ہو،میرے لیفٹیننٹ کی بیٹی ہو اور میں ایک معمولی سا سپاہی،باڈی گارڈ ہوں تمہارا۔ ایسی بات تمہارے ذہن میں آئی بھی کیسے؟"
انس نے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا لیکن ہانیہ بس ہلکا سا مسکرائی تھی۔
"عمر کی کوئی بات نہیں بس تین سال کی بات ہے میں اٹھارہ کی ہو جاؤں گی تو تب ہم شادی کر لیں گے لیکن تب تک کسی اور لڑکی کا خیال بھی اپنے ذہن سے دور رکھیے گا آپ صرف اور صرف ہانیہ وجدان خان کے ہیں۔۔۔"
ہانیہ نے جنون سے کہہ کر انس کو چھوڑا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ اپنی باتوں سے وہ انس کے دل میں ایک خوف برپا کر چکی تھی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
"سر مجے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔"
انس اس وقت آرمی یونیفارم میں ملبوس وجدان کے سامنے کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
"ہاں انس کہو سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔"
وجدان نے پریشانی سے پوچھا۔
"سر میں چاہتا ہوں کہ آپ میری ڈیوٹی چینج کر دیں میں اب مزید یہاں نہیں رہ سکتا۔"
انس کی بات پر وجدان کے ماتھے پر بل آئے تھے۔
"تین مہینوں سے سب ٹھیک چل رہا تھا انس پھر اچانک اب کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں ہوا سر بس آپ میری ڈیوٹی شفٹ کر دیں اٹس آ ریکویسٹ۔۔۔"
انس نے ہانیہ کی باتیں یاد کرتے ہوئے کہا وہ نہیں چاہتا تھا کہ عمر کے اس نازک موڑ پر ہانیہ اسے لے کر مزید جزباتی ہو اس لیے بہتر یہی تھا کہ وہ اس سے دور چلا جاتا۔
وجدان کافی دیر انس کی بات پر غور کرتا رہا پھر بولا۔
"نہیں انس میں تمہاری ڈیوٹی چینج نہیں ہونے دے سکتا تم میری بیٹیوں کی حفاظت کے لیے بلکل پرفیکٹ ہو اور تم یہیں رہو گے۔۔۔"
انس نے وجدان کے حکم پر اپنی مٹھیاں کس لیں۔
"نہیں سر پہلے میں نے آپکی بات مان لی لیکن اب مزید نہیں۔آرمی میں میں ملک کے لیے کچھ کرنے آیا تھا،اپنے بابا کا خواب پورا کرنے کے لیے،ملک کے لیے جان قربان کرنے آیا تھا میں کسی کی بیٹیاں پالنے کے لیے نہیں۔"
انس نے انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تو وجدان اسے گھورنے لگا۔
"تم کچھ بھی کر لو انس میں تمہاری ڈیوٹی شفٹ نہیں ہونے دوں گا یہ وعدہ ہے وجدان خان کا تم سے۔۔۔۔"
وجدان اپنی بات کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔اگر انس چاہتا تو وہ اسی وقت ہانیہ کی کہی ہر بات وجدان کو بتا کر اپنی ڈیوٹی چینج کرنے کی وجہ بتا دیتا لیکن  وہ ایک باپ کو خود کی ہی نظروں میں گرتے نہیں دیکھ سکتا تھا نہ ہی ہانیہ کے بچپنے میں کہی بات کو اسکے لیے ایک عمر بھر کا المیہ بنا سکتا تھا۔اسی لیے ایک فیصلہ کر کے وہ وجدان کی جانب مڑا۔
"تو ٹھیک ہے سر آپ اپنی طاقت کا استعمال کر کے میری ڈیوٹی شفٹ ہونے نہیں دیں گے لیکن میں اس نوکری کو کبھی بھی چھوڑ  سکتا ہوں۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر انس نے اپنی پسٹل نکال کر میز پر رکھی اور پھر اپنے سینے سے اپنے نام کا بیج کھینچ کر وجدان کے سامنے میز پر پھینکا۔
"میں آج ابھی اسی وقت یہ نوکری چھوڑتا ہوں جس میں مجھے اپنے ملک کی نہیں بلکہ ایک خود غرض افسر کی غلامی کرنی پڑے۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر انس نے اپنے کندھے سے پاکستان کا جھنڈا اتارا اور عقیدت سے چوم کر  وجدان کے سامنے میز پر رکھا۔
"یہ نوکری آپکو ہی مبارک سر اپنی بیٹیوں کے لیے کوئی نیا غلام ڈھونڈ لیجیے گا۔"
اتنا کہہ کر انس وہاں رہا نہیں تھا اور پھر کسی سے بھی ملے بغیر وہاں سے چلا گیا۔کچھ دن کے بعد بس وجدان کو ہیڈ کواٹر سے خبر ملی کہ انہیں انس کا ریزگنیشن لیٹر ملا تھا۔
وجدان کو اسکے اس طرح سے  نوکری چھوڑنے کا افسوس ہوا تھا لیکن سب سے زیادہ دکھ ہانیہ کو ہوا جو یہ خبر ملتے ہی مکمل طور پر بکھر گئی تھی۔
بس کمرے میں خود کو بند کیے روتی رہی تھی۔وہ بس یہ جانتی تھی کہ انس نے اس لڑکی سے شادی کرنے کے لیے ایسا کیا تھا۔
"آئی ہیٹ یو ہیرو آئی ہیٹ یو سو مچ۔۔۔بہت برے ہو تم اور میرے ہیرو بھی نہیں۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو۔۔۔۔"
ہانیہ نے روتے ہوئے کہا تھا اور پھر خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پھر کبھی اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھے گی اور نہ ہی اسکے لیے دکھی ہو گی جسکے قریب اسکے جزبات کی اہمیت ہی نہیں تھی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
(حال)
انس نے کافی لا کر ہانیہ کے سامنے کی جو تب سے وہاں بیٹھی بس رونے کا شغل فرما رہی تھی۔
"ہانیہ پلیز مجھے بتاؤ کہ ہوا کیا ہے تم اس طرح یہاں کیا کر رہی ہو؟"
انس نے اس کے وجود سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ہانیہ اب کوئی پندرہ سال کی بچی نہیں رہی تھی بلکہ ایک خوبصورت لڑکی بن چکی تھی۔
جب ہانیہ رونا بند نہیں ہوئی تو انس نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"پلیز ہانیہ بتاؤ کہ ہوا کیا ہے؟"
انس نے بہت زیادہ نرمی سے پوچھا تو ہانیہ نے روتے ہوئے ہر بات اسے بتا دی جسے سن کر انس بھی حد سے زیادہ پریشان ہوا تھا۔
"پتہ نہیں انس وہ وہاں کس حال میں ہو گی مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ اپنی بہن کی کیسے مدد کروں۔۔۔۔۔"
ہانیہ نے روتے ہوئے کہا تو انس نے اسکے دونوں ٹھنڈے ہاتھ اپنے گرم ہاتھوں میں تھام لیے۔
"سب سے پہلے رونا بند کرو اور مجھے بتاؤ کہ تم چاہتی کیا ہو؟"
انس کی بات پر ہانیہ نے اپنے آنسو پونچھ دیے۔
"میں وانیا کو ڈھونڈنا چاہتی ہوں اسے اس مصیبت سے نکالنا چاہتی ہوں۔۔۔"
ہانیہ کی بات پر انس حیران ہوا۔
"لیکن یہ آرمی کا کام ہے ہانیہ اور تمہارے بابا اپنی طاقت کا استعمال کر کے اسے ضرور ڈھونڈ لیں گے تم تھوڑا صبر۔۔۔۔"
"نہیں انس بابا وانیا کو نہیں ڈھونڈ رہے نہ جانے کیوں وہ ایسا کر رہے ہیں جیسے وہ بے بس ہوں اور کچھ کرنا ہی نہ چاہتے ہوں۔۔۔۔۔"
ہانیہ کی بات پر انس مزید حیران ہوا کہ ایسا کیسے ہو سکتا تھا اس شخص کی بیٹیاں اسکی جان تھیں جن کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔
"لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی میں یوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھوں گی انس میں اسے ڈھونڈ کر رہوں گی۔۔۔اسی لیے میں بابا سے چھپ چھپا کر یہاں آ گئی اب تب ہی گھر واپس جاؤں گی جب وانیا میرے ساتھ ہو گی۔۔۔۔۔"
ہانیہ نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے فیصلہ سنایا پھر انس کی جانب مڑی۔
"اور میں یہاں آپکی مدد مانگنے آئی ہوں انس کیا آپ اسے ڈھونڈنے میں میرا ساتھ دیں گے؟"
ہانیہ کے لہجے میں اس قدر تڑپ اور امید تھی کہ انس سمجھ نہیں پایا کہ اسے کیسے منع کرے کیسے اسے سمجھائے کہ جو وہ کرنا چاہ رہی تھی وہ بہت زیادہ خطرناک تھا۔
"ٹھیک ہے ہانیہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔ لیکن فلحال تم جاؤ اور خشک کپڑے پہن کر آؤ ورنہ تمہیں نمونیہ ہو جائے گا ۔۔۔۔"
انس نے ہلکا سا ہنس کر کہا تو ہانیہ نم آنکھوں سے مسکرائی اور اپنا بیگ لے کر سامنے موجود کمرے میں چلی گئی۔بہت سوچنے کے بعد انس نے اپنا موبائل نکالا اور فون ملانے لگا۔کچھ دیر بعد کی فون اٹھا لیا گیا تھا۔
"ہیلو وجدان سر۔۔۔انس بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔ہانیہ اس وقت میرے پاس ہے۔۔۔"

   0
0 Comments